
دھماکہ قصبے کے مرکزی علاقے میں ایک مصروف بازار کے قریب ہوا، جو اکثر عسکریت پسند گروہوں کا نشانہ بنتا رہا ہے۔ یہ گروہ خیالی رغال وادی کے آس پاس سرگرم ہیں، جسے طویل عرصے سے شدت پسند سرگرمیوں کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ دھماکے کے بعد ہر طرف افراتفری پھیل گئی، اور ریسکیو ٹیمیں ملبے تلے دبے زخمیوں کو نکالنے کے لیے دوڑ پڑیں۔ مقامی دکان دار عبدالکریم، جو دھماکے سے بال بال بچا، نے بتایا: “میں نے ایک زور دار دھماکہ سنا اور ہر طرف آگ کے شعلے دیکھے۔ لوگ چیخ رہے تھے، بھاگ رہے تھے — یہ منظر کسی جنگی میدان جیسا تھا۔”
سیکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا ہے اور مکمل تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ ابھی تک کسی گروہ نے دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی، لیکن حکام کو شبہ ہے کہ اس میں ایک معروف علیحدگی پسند تنظیم ملوث ہو سکتی ہے، جو اس علاقے میں سرگرم ہے۔
وزیرِاعظم احسن محمود نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے “بزدلانہ دہشت گردی” قرار دیا اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے عزم کا اظہار کیا۔ قریبی شہروں کے اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے اور وہاں شدید زخمیوں کو منتقل کیا جا رہا ہے۔
یہ رواں سال اس خطے میں ہونے والا سب سے ہلاکت خیز حملہ ہے، جس سے پاکستان کی شمالی سرحدی پٹی میں عسکریت پسندی کے دوبارہ سر اٹھانے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔